عشق کس کو کہتے ہیں؟انالحق کا نعرہ لگانے والے منصور کو روز قیامت زنجیروں سے جکڑ کر کیوں پیش کیا جائے گا۔

زبان کاٹنے کے بعد ہر عضو سے اناالحق کی آواز آنے لگی۔

 منصور رح سے کسی اللہ والے نے پوچھاکہ عشق کس کو کہتے ہیں؟منصور رح نے فرمایا کہ آج،کل اور پرسوں میں تجھ کو معلوم ہو جائے گا۔چنانچہ اسی دن آپ کو پھانسی دے دی گئی دوسرے دن آپ کی نعش کو جلا دیا گیا اور تیسرے دن خاک ہوا میں اڑا دی گئی۔

          گویا آپ کے قول کے مطابق عشق کا صحیح مفہوم یہ تھا۔اور جب آپ کے خادم نے وصیت کرنے کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ اپنے نفس کو تمام علائق دنیاوی سے خالی کرلے ورنہ یہ نفس تجھ کو ایسی چیزوں میں پھانس دے گا جو تیرے بس کی نہ ہو گی۔
            پھر جس وقت آپ کو پھانسی کے پھندے کے نیچے لے جایا گیا تو آپ نے پہلے باب الطاق کو بوسہ دیکر سیڑھی پر جس وقت قدم رکھا تو آپ سے پوچھا کہ کیا حال ہے،آپ نے فرمایا کہ "پھانسی تو مردوں کا مزاج ہے".پھر قبلہ روح ہو کر اپنے رب سے کہنے لگے "میں نے جو کچھ طلب کیا تو نے عطا کر دیا".پھر جب سولی پر چڑھتے ہوئے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے اپنے مخالفین اور متبعین کے متعلق کیا خیال ہے۔فرمایا کہ متبعین کو ایک اجر تو اس لیے ضرور حاصل ہوگا کہ وہ مجھ سے صرف حسن ظن رکھتے ہیں اور مخالفین کو دو ثواب حاصل ہونگے کیونکہ وہ قوت توحید اور شریعت میں سختی سے خائف رہتے ہیں۔
         پھر جب سیڑھی پر آپ کے ہاتھ قطع کر دئے گئے تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا لوگوں نے میرے ظاہری ہاتھ قطع کر لئے لیکن میرے وہ باطنی ہاتھ کون قطع کر سکتا ہے جنہوں نے ہمت کا تاج عرش کے سر سے اتارا ہے۔اسی طرح جب پاؤں قطع کر لئے گئے تو فرمایا کہ گو میرے ظاہری پاؤں قطع کر دئے گئے ہیں لیکن ابھی وہ باطنی پاؤں باقی ہیں جن سے میں دونوں جہانوں کا سفر کر سکتا ہوں۔پھر آپ نے خون آلود ہاتھوں کو چہرے پر ملتے ہوئے فرمایا کہ میری سرخروئی اچھی طرح مشاہدہ کر لو کیونکہ خون جوان مردوں کا ابٹن ہوتا ہے۔پھر خون سے لبریز ہاتھوں کو کہنیوں تک پھرتے ہوئے فرمایا کہ نماز عشق کیلئے وضو کر رہا ہوں کیونکہ نماز عشق کے لئے خون ہی سے وضو کیا جاتا ہے۔
پھر جب آنکھیں نکال کر زبان قطع کرنے کا قصد کیا گیا تو فرمایا کہ مجھے ایک بات کہہ لینے دو۔پھر فرمایا کہ اے الللہ میرے ہاتھ تیرے راستے میں قطع کر دئے گئے،انکھیں نکال دی گئیں اور اب سر بھی کاٹ دیا جائے گا لیکن میں تیرا شکرگزار ہوں کہ تو نے مجھ کو ثابت قدم رکھا اور تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ ان سب کو بھی وہی دولت عطا فرما جو مجھے عطا کی ہوئی ہے۔پھر منصور رح پر جب پتھر برسانا شروع ہوئی تو آپ کے زبان پر یہ کلمات تھے کہ "یکتا کی دوستی بھی یکتا کر دیتی ہے پھر آپ نے ایک آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ "ان لوگوں سے کام عجلت سے لیا جاتا ہے جو اس پر ایمان نہیں لے آئے اور اہل ایمان اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ بلاشبہ حق ہے".ا
پھر جب آپ کی زبان کاٹی گئی تو خلیفہ وقت نے حکم دیا کہ سر بھی قلم کر دیا جائے۔چنانچہ سر قلم ہوتے وقت آپ قہقہ لگا کر انتقال فرما گئے۔اور آپ کے ہر ایک عضو سے "اناالحق"کی آواز گونجنے لگی پھر جب ہر عضو کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور صرف گردن و پشت باقی رہ گئے تو ان دونوں حصوں سے بھی اناالحق کا ورد جاری تھا جس کی وجہ سے آپ کو اگلے دن اس خوف سے جلایا گیا کہ کہیں مزید کوئی فتنہ کھڑا نہ ہو جائے اور آخیر کار جسم کی راک کو دریائے دجلہ میں ڈالا گیا۔
            جس وقت جسم کا راک دریا میں پینکھا تو پانی میں ایک جوش سا پیدا ہوا اور سطح آب پر کچھ نقوش بننا شروع ہوئے۔چنانچہ آپ کے خادم کو وہ وصیت یاد تھی جو آپ نے اپنی زندگی میں فرمائی تھی۔'جس وقت میری راک کو دجلہ میں پھینکا جائے تو پانی میں ایسا جوبن و طوفان پیدا ہوگا کہ پورا بغداد غرق ہو جائے گا،لیکن جب یہ کیفیت ہو تو تم میری گدڑی دجلہ کو جا کر دکھا دینا۔چنانچہ خادم نے جب آپ کی وصیت پر عمل کی تو پانی اپنی جگہ ٹھہر گئی اور تمام راکھ جمع ہو کر ساحل پر آگئی لوگوں نے نکال کر دفن کر دیا۔
عرض یہ کہ یہ مرتبہ کسی بزگ کو حاصل نہیں ہوا۔چنانچہ ایک بزگ نے تمام اہل طریقت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔کہ جب منصور رح کا واقع سامنے آتا ہے تو مجھے بےحد حیرت ہوتی ہے اور میں یہ سوچتا ہوں کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا ان کا حشر میں کیا حال ہو گا۔
      حضرت عباس طوسی کہتے ہیں کہ روز محشر منصور رح کو اس لئے زنجیروں سے جکڑ کر پیش کیا جائے گا کہ کہی۔ میدان حشر زیر و زبر نہ ہو جائے۔حضرت خواجہ محبوب الٰہی نے فرمایا جب منصور کو سولی پر چڑھانے سے پہلے لوگوں نے خوب پتھروں سے مارا جو قطرہ آپ کے جسم مبارک سے زمین پر گرتا اس سے انااللہ زمین پر لکھا جاتا اس کے حضرت خواجہ رح نے فرمایا کہ منصور کی محبت کا کیا کہے اسے پہلے روز قتل کیا گیا دوسرے روز جلایا گیا اور تیسرے روز پانی میں بہایا گیا۔

Comments